صيد الفوائد saaid.net
:: الرئيسيه :: :: المكتبة :: :: اتصل بنا :: :: البحث ::







ہم قرآن مجید کیوں حفظ کرتے ہیں ؟!!!

تالیف:
فضيلۃ الشيخ ابراهيم محمد الهلالي


ہم قرآن مجید کیوں حفظ کرتے ہیں ؟!!!
ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے ہمیں دین اسلام کے ذریعہ عزت عطا کی، دین کے روشن نقوش جن میں کوئی اشتباہ نہیں ہے، کی طرف ہماری رہنمائی کی اور ہمیں اس بہترین امت میں شامل کیا جو لوگوں کی بھلائی کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ اللہ کی رحمت اور برکت ہو اس رحمت پر جس کا تحفہ ہمیں عطا کیا گیا ہے اور اس نعمت پر جس سے ہمیں نوازا گیا ہے یعنی محمد بن عبداللہ پر۔ اللہ کی رحمت ہو آپ پر اور آپ کے آل پر اور قیامت کے دن تک آپ پراللہ کی بے پایاں سلامتی نازل ہوتی رہے۔حمدوصلاۃ کے بعد:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی نعمت عطا کرکے ہمارے اوپر احسان کیا جو اپنے آپ میں بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے، جس نے قرآن کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا۔ قرآن ایک حتمی پیغام الٰہی ہے، اس کی بات فیصلہ کن اور دوٹوک ہے، اس میں کوئی بھی غیر سنجیدہ بات نہیں ہے۔ اس کی آیات بار بار زبانوں سے دہرائی جاتی ہیں پھر بھی پرانی نہیں ہوتیں۔ علماء اس کتاب ہدایت سے خوب خوب استفادہ کرتے ہیں پھر بھی آسودہ نہیں ہوتے۔ وہ سچے لوگوں کے لئے آبِ حیات کا صاف و شفاف چشمہ ہے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر چلنے والوں کے لئے طاقت کا سرچشمہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور ان سطور کو پڑھنے والے آپ تمام بھائیوں اور بہنوں اور تمام مسلمانوں کو قرآن سے تعلق استوار کرنے والا بنائے، یہی لوگ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔

میرے مسلمان بھائی! اور میری مسلمان بہن! کیا آپ لوگوں نے کسی دن اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ ہم قرآن کیوں حفظ کرتے ہیں اور اسے اپنی نسلوں کو کیوں حفظ کرواتے ہیں؟ اسے حفظ کرنے کی یہ ساری کوششیں آخر کیوں کی جاتی ہیں؟ حفظ قرآن کے بارے میں ان لوگوں کی دلچسپی اور فکر مندی آخر کیوں بڑھتی جارہی ہے جو امت کے حال و مستقبل کے تعلق سے غیرت مند ہیں؟ اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے یہ چوطرفہ جدوجہد آخر کیوں ہے؟ سلطان اپنی حکومت کے ذریعہ، عالم اپنے علم اور مقام و مرتبہ کے ذریعہ مالدار و خوشحال اپنے مال و دولت کے ذریعہ، استاذ اپنی محنت و توجہ کے ذریعہ اور منتظم اپنی خصوصی دلچسپی اور نگرانی کے ذریعہ اس مشن کو کامیاب بنانے میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب تو بہت طویل ہے۔ ذیل میں ان سوالوں کے چند جوابات دیئے گئے ہیں، آپ انہیں گرہ میں باندھ لیں اور باقی سوالوں کے جوابات کے لئے بھی ان سے استدلال کریں۔ اس سلسلہ میں آپ کو جو علم حاصل ہو اسے مضبوطی سے پکڑلیں۔ ان شاء اللہ یہ آپ کے لئے سودمند ہوگا:

۱۔ پہلا جواب یہ ہے کہ ہم حفظ قرآن کے معاملہ میں نبی کریم ﷺ کو اپنا اسوہ و نمونہ بناتے ہوئے اس نیک عمل کو انجام دیتے ہیں۔ آپ ﷺ قرآن مجید کو یاد کرتے تھے، ہمیشہ اس کی تلاوت کرتے رہتے تھے اور ہرسال جبریل علیہ السلام کو قرآن سناتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کی وفات ہوئی اُس سال آپ نے جبریل علیہ السلام کو دومرتبہ قرآن سنایا۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن پڑھاتے تھے اور ان سے قرآن سنتے تھے۔

۲۔ ہم حفظ قرآن کے معاملہ میں سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اِس کارخیر کو انجام دیتے ہیں۔ وہ لوگ تمام علوم سے پہلے حفظ قرآن اور علم قرآن سے اپنی تعلیم کا آغاز کرتے تھے۔ امام ابن عبدالبر کہتے ہیں: ’’دین کا علم درجہ بدرجہ ، منزل بمنزل اور رتبہ برتبہ حاصل کیا جاتا ہے، اس سے تجاوز کرنا صحیح نہیں ہے، جس نے ان ساری حدوں سے تجاوز کیا وہ سلف رحمہم اللہ کے راستہ سے تجاوز کرگیا۔ تعلیم کا سب سے پہلا مرحلہ کتاب اللہ کا زبانی یاد کرنا اور اس کو سمجھنا ہے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حفظ قرآن اُن بہت سارے علوم پر مقدم ہے جنہیں لوگ علم کا نام دیتے ہیں۔ اِن میں سے کچھ علوم باطل ہیں اور کچھ کم فائدہ مند ہیں۔ جو شخص علم دین میں سے اصول و فروع کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے حق میں بھی حفظ قرآن مقدم ہے۔ موجودہ دور میں اس قبیل کے تمام لوگوں کے حق میں مشروع یہی ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن کریم سے کریں، اس لئے کہ دینی علوم کی اصل یہی ہے۔

۳۔ قرآن مجید کو زبانی یاد کرنا اس امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ ابن الجزری رحمہ اللہ کہتے ہیں: قرآن مجید کو نقل کرنے کے معاملہ میں جس چیز پر اعتماد کیا جاتا ہے وہ دلوں کی یادداشت اور سینوں کے اندر قرآن کا محفوظ ہونا ہے۔ یہ اِس امت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اعلیٰ ترین خصوصیت ہے۔ قرآن مجید کو زبانی یاد کرنا، ہمیشہ سے اِس امت کا شعار رہا ہے اور حفظ قرآن کا یہ اہتمام دشمنوں کے حلق میں کانٹے کی طرح چبھتا رہا ہے۔‘‘ ایک مستشرق کہتا ہے: شاید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن ہے اور یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کی ساری کتابوں کی بہ نسبت قرآن کا حفظ سب سے آسان ہے۔
ایک دوسرا مستشرق کہتا ہے: باوجودیکہ ایمان کی لہر کمزور پڑچکی ہے اور اس کا دائرہ سمٹ گیا ہے مسلمانوں میں ہزاروں ایسے افراد موجود ہیں جو قرآن کو زبانی طور پر اپنی یادداشت سے دہرانے پر قادر ہیں۔ صرف تنہا مصر میں قرآن کے حفاظ کی تعداد پورے یورپ میں مختلف انجیلوں کی زبانی تلاوت کرنے والوں سے زیادہ ہے۔

۴۔ قرآن کا حفظ تمام لوگوں کے لئے آسان ہے۔ بہت سے محدود شعور اور کمزور یادداشت کے لوگ بھی قرآن کریم کو حفظ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نیز عربی زبان سے ناواقف عجمیوں اور بہت سے معمر افراد نے بھی قرآن مجید کو حفظ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے۔ ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’قرآن کریم کے اعجاز کی سولہویں صورت یہ ہے کہ قرآن تمام انسانوں کی زبان پر آسانی کے ساتھ جاری ہوجانے والا کلام ہے، یہاں تک کہ گونگے عجمیوں نے بھی حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی اور لکنت زدہ قبطیوں کی زبان پر بھی یہ قرآن جاری ہوگیا۔ قرآن مجید کی طرح کسی بھی دوسری کتاب کو زبانی یاد نہیں کیا جاتاہے اور گونگے کی زبان پر قرآن کی طرح کوئی دوسری کتاب جاری نہیں ہوتی ہے۔‘‘ قرطبی اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ولقد ترکناھا آیۃ فھل من مدکر‘‘(القمر15) کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں: یعنی ہم نے قرآن کو حفظ کرنے کے لئے آسان بنادیا ہے اور حفظ قرآن کا ارادہ و نیت کرنے والوں کی ہم نے مدد کی ہے، لہذا حفظ قرآن کا کوئی طالب ہے جس کی مدد کی جائے۔ اس سے کتاب اللہ کے حفظ کے معاملہ میں عزم و ارادہ کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔

۵۔ حفظ قرآن مجید ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں ناکامی ہاتھ نہیں لگتی۔ جب حفظ قرآن میں دلچسپی رکھنے والا اس منصوبہ کا آغاز کرتا ہے اور چند پارے حفظ کرنے کے بعد اس کا عزم و ارادہ کمزور ہوجاتا ہے اور اس کی محنت و لگن ساتھ چھوڑدیتی ہے تو کیا اسے ناکامی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس نے قرآن کے کچھ حصے کو یاد کرنے کے لئے جو محبت اور کوشش کی وہ یقینی طور پر رائیگاں نہیں ہوئی۔ یا یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس نے اپنی یادداشت میں قرآن کو قابل ذکر طور پر محفوظ نہیں کیا لیکن اس نے چند اجزاء کو حفظ کرنے کے بعد اپنا جو وقت تلاوت اور حفظ شدہ حصہ کے مراجعہ میں صرف کیا وہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارا ہوا وقت ہے۔ اس نے تو نہ جانے کتنی آیتوں اور سورتوں کی تلاوت کی اور یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی کتاب کے ایک حرف کے بدلہ دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔

۶۔ حافظ قرآن ہر طرح کی تکریم اور عزت افزائی کا مستحق ہے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے کہ ہر عمردراز مسلمان جس کے بالوں میں سفیدی ظاہر ہوچکی ہو اور ہر وہ حافظ قرآن جو قرآن کے معاملہ میں غلوکرنے والا اور قرآن سے بے رخی برتنے والا نہ ہو اور عادل حکمراں کی عزت افزائی کی جائے۔ (سنن ابوداود)
جس نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے سینہ میں محفوظ کرلیا اس کا یہ حق ہے کہ اس کی تکریم اور عزت افزائی کی جائے۔ نماز جو اسلام کا دوسرا رکن ہے، کی امامت کا سب سے زیادہ مستحق حافظ قرآن ہے۔ حدیث رسول ﷺ ہے:’’قوم کی امامت وہ شخص کرے جو اللہ کی کتاب کا سب سے زیادہ پڑھنے والا یعنی علوم قرآن کا ماہر ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)

۷۔ حقیقی رشک اور محمود و مستحسن حسد اس شخص سے کیا جائے گا جس نے قرآن مجید کو یاد کرلیا اور اس کے حق کی ادائیگی کی۔ حدیث نبویﷺ ہے:’’حسد صرف دو طرح کے لوگوں سے کیاجاسکتا ہے، ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے علم سے نوازا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو، اس کا پڑوسی اس کی تلاوت کو سنے اور کہے: کاش مجھے بھی فلاں کی طرف علم قرآن سے نوازا گیا ہوتا تو میں بھی اس کی طرح عمل کرتا۔۔۔ الحدیث۔(صحیح بخاری)

۸۔ قرآن مجید کو حفظ کرنا اور اس کے علم سے آراستہ ہونا دنیا کی سب سے بہترین پونجی ہے۔ جس وقت لوگ درہم و دینار کو پاکر خوش رہے ہوتے ہیں اور اسے سنبھال کر اپنے پاس رکھتے ہیں اس وقت قرآن مجید کا حافظ و قاری اس سے بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والے سرمایۂ حیات سے اپنے دامن مراد کو بھرتا ہے۔ آپ ﷺ نے اہل صفہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:’’تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ وہ ہردن صبح کو وادی بطحان یا وادی عقیق کی طرف جائے اور وہاں سے دو بلند کوہان والی اونٹنیوں کے ساتھ واپس آئے جنہیں اس نے کسی گناہ اور قطع رحمی کے بغیر حاصل کیا ہو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سب اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’کوئی شخص صبح مسجد میں جائے اور وہاں قرآن کی دو آیتیں سیکھے یا دو آیات کی تلاوت کرے، یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ قرآن کی تین آیتیں تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چار آیتیں چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور اتنے ہی اونٹوں سے بہتر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)

۹۔ قرآن مجید کا حفظ دنیا و آخرت میں بلندی عطا کرنے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ حدیث نبوی ہے:’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ کچھ لوگوں کو بلندی عطا کرے گا اور کچھ لوگوں کو پستی میں گرادے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو اس وقت حافظ قرآن دوسرے جنتیوں سے بلند ہوگا اور اس کا رتبہ بھی بلند ہوگا۔عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ’’حافظ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ، اس ترتیل کے ساتھ قرآن کو پڑھو جیسے دنیا میں پڑھتے تھے۔ تمہاری منزل وہاں ہے جہاں تم آخری آیت کی تلاوت کروگے۔‘‘ (سنن ترمذی)
ابن حجر ہیثمی کہتے ہیں: یہ حدیث اُس شخص کی فضیلت میں ہے جو قرآن کو زبانی یاد کرتا ہے، اس شخص کے لئے نہیں ہے جو مصحف دیکھ کر تلاوت کرتا ہے، اس لئے کہ دیکھ کر تلاوت کرنے کے معاملہ میں لوگ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں اور قلت و کثرت کے اعتبار سے اس معاملہ میں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔

۱۰۔ حافظ قرآن معزز اور نیک فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ حدیث نبوی ہے: ’’وہ شخص جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس کا حافظ بھی ہے، وہ معزز و نیک فرشتوں کے ساتھ ہے اور جو قرآن پڑھتا اور اپنی یادداشت کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور اس کا غایت درجہ اہتمام کرتا اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘

۱۱۔ حافظ قرآن عام طور پر سب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والا ہوتا ہے۔ حفظ قرآن کے لئے اُسے آیتوں کو بار بار زبان سے دہرانا پڑتا ہے اور حفظ قرآن مکمل ہوجانے کے بعد مسلسل مراجعہ کے بغیر قرآن یادداشت میں محفوظ نہیں رہتا ہے اور ہم نے یہ جان لیا ہے کہ قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کے بدلہ دس نیکیاں ملتی ہیں۔

۱۲۔ حافظ قرآن تمام حالات میں قرآن کی تلاوت کرسکتا ہے۔ وہ چلتے پھرتے، لیٹے بیٹھے، ہاتھ سے کام کرتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے اور سفر و حضر ہرحال میں تلاوت کرسکتا ہے لیکن غیر حافظ کے لئے شدید چاہت کے باوجود ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

۱۳۔ حفظ قرآن، خطیب، واعظ، معلم اور متکلم کے لئے زاد راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حفظ قرآن کے بعد قرآن کی آیتیں اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہیں۔ وہ جب چاہے قرآنی آیات کی شکل میں دلائل و شواہد اس کے ذہن میں مستحضر رہتے ہیں۔ اُن میں سے جو مناسب ہو وہ اُسے منتخب کرلیتا ہے۔ اس کے برخلاف غیرحافظ کے لئے کسی آیت کی جگہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے تو وہ اپنی یادداشت سے قرآن کی تلاوت کیسے کرسکتا ہے۔

اِن فوائد سے مطلع ہونے کے بعد کیا آپ یہ عہدو پیمان کرتے ہیں کہ ہم سب قرآن مجید کو یاد کرنے اور یاد کرانے کی اِس مہم میں شامل ہوں گے اور اِس بلند مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ہم آپ سے اور آپ جیسے باہمت افراد سے یہی امید رکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ عنقریب اگلی ملاقات میں ایک دوسرے قابل توجہ پیغام کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بے شمار سلامتی ہو حبیب مصطفیﷺ، نبی امی اور آپ کے آل و اصحاب پر۔


 

اعداد الصفحة للطباعة      
ارسل هذه الصفحة الى صديقك
إبراهيم الهلالي
  • مقالات ورسائل
  • الصفحة الرئيسية