اطبع هذه الصفحة


کیا آپ قرآن کے ساتھ ادب سے پیش آتے ہیں؟؟

تالیف:
فضيلۃ الشيخ ابراهيم محمد الهلالي


الحمد لله العلي الأعلى، وصلى الله على النبي الأسمى وعلى آله وصحبه وسلم.
قرآن کریم دیگر کتابوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ رب العالمین کا کلام ہے، اسی کی جانب سے نازل ہوا ہے اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا، وہ ہر کلام پر غالب ہے، بالکل اسی طرح جس طرح اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات پر بلند وبرتر ہے، وہ اللہ کی عظمت شان پر دلالت کرنے والی صفت ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کے ساتھ ادب سے پیش آتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کے ساتھ ہمارا ادب کیسا ہونا چاہئے؟ ہمارے سلف صالحین نے اس کا نہایت شدید اہتمام کیا چنانچہ انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے قیمتی اور علمی کتابیں تالیف فرمائی، ان اسلاف کرام رحمہم اللہ نے جو آداب مقرر فرمائے ان میں سے چند آداب میں یہاں پیش کر رہا ہوں، چنانچہ تلاوت قرآن کے چند آداب حسب ذیل ہیں:

پہلا ادب: اخلاص، قرآن کی تلاوت کرنے والے پر واجب ہے کہ تلاوت میں مخلص ہو اور اس کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو، صحیح بخاری میں آیا ہے: "سب سے پہلے جن کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا ، وه تین اشخاص ہوں گے، ان میں یہ بھی ذکر کیا: وہ شخص جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا، اسے بھی لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنے احسانات گنوائے گا، وہ ان سب کا اعتراف کرے گا، اللہ تعالی فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیری رضا مندی کے لیے قرآن پڑھا، اللہ تعالی فرمائے گا: تونے جھوٹ بولا، تونے اس لیے علم سیکھا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے ، یہ سب کچھ تو کہہ دیا گیا، اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا"۔

دوسرا ادب: قرآن کے قاری کو چاہئے کہ (تلاوت سے قبل) طہارت ونظافت حاصل کرے اور مسواک کا استعمال کرے۔
تیسرا ادب: تلاوت کا آغاز اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم سے کرے ، کیوں کہ اس کے ذریعہ بیہودہ اور بے معنی باتوں سے منہ کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے: ( فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ) [النحل: 98]

ترجمہ: قرآن پڑھتے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔
اگر قاری کو شروع سے کوئی سورۃ پڑھنا ہو تو اعوذ باللہ کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے۔
چوتھا ادب: تلاوت قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو خوبصورت بنائے۔
پانچواں ادب: تلاوت کے دوران خشوع وخضوع اختیار کرے اور انسان جو کچھ تلاوت کرے اس پر غور وفکر کرے، چنانچہ قاری کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنے پروردگار کی کتاب اس حال میں پڑھے کہ نہ اس پر خشوع وخضوع کا مظہر ہو اور نہ (قرآن کا) کوئی اثر، گویا وہ کوئی روزنامہ یا مجلہ پڑھ رہا ہو: ( كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الأَلْبَابِ ) [ص: 29]
ترجمہ: یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ) [الحشر: 21]
ترجمہ: اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔

بے حس وبے جان پتھروں کی یہ حالت ہے کہ اگر ان پر قرآن کا نزول ہوتا تو وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ، تو اللہ کے واسطے اے ہمارے حبیب آپ بتائیں کہ: ہمارے پروردگار کی کتاب کے ساتھ ہمارے دل کی کیا حالت ہے؟!
ہم نے کتنی دفعہ قرآن کی تلاوت کی؟! اس میں کتنی ساری حکمت ونصیحت وغیرہ کی باتیں سنیں؟! کیا ہم نے قوم عاد کو دبوچنے والی چنگھاڑ ، قوم ثمود پر گرنے والی اور قوم لوط کے زمین میں دھنسائے جانے (کے واقعات ) نہیں پڑھے؟! کیا ہم نے سورۃ الحاقۃ، سورۃ الزلزلۃ ، سورۃ القارعۃ اور سورۃ إذا الشمس کوّرت کی تلاوت نہیں کی؟! سبحان اللہ! ہمارے دلوں پر یہ کونسا زنگ چڑھ گیا ہے؟! ( أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافًا كَثِيرًا)[النساء: 82].

ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

کیا ہم سنگ دل ہوچکے ہیں؟! مجھے کوئی بتائے کہ ایسا دل کہاں ہے جو خشوع وخضوع سے لبریز ہوتا اور ایسی آنکھ کہاں ہے جو (خشیت الہی سے ) اشک بار ہوتی ہے؟! بعض ایسے دل ہیں جو غفلت کا آشیانہ اور قربت وانسیت سے بہت زیادہ بے گانہ ہوچکے ہیں! یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان لہب ولعب سے باز نہیں آرہے ہیں اور ہمارے بزرگ (امت کے ) چنیدہ ومنتخب سرخیل (کی صف میں) شامل نہیں ہو پارہے ہیں، بلکہ (سچائی یہ ہے کہ) ہم خلوت وجلوت ہر جگہ اپنے پروردگار کی کتاب کے تئیں کوتاہی کے شکا ر ہیں، لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
اے مسلمانو! قرآن ہی آپ کے لیے باعث عزت ومرتبت ہے، اس کی تلاوت اسی طرح کیجئے جس طرح کہ اس کا حق ہے، آپ بڑے اجر وثواب سے سرفراز اور ہمیشگی کی نعمت سے ہمکنار ہوں گے : ( لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلا تَعْقِلُونَ ) [الأنبياء: 10]

ترجمہ: یقینا ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لئے ذکر ہے، کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے؟
جب امت نے قرآن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ذلت وخواری نے اسے گھیر لیا۔

مسلمان کو چاہئے کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے یہ ذہن نشیں رکھے کہ قرآن اس سے مخاطب ہے اور قرآنی خطاب کا مقصود ومراد اسی کی ذات ہے، نیز تجوید وترتیل کے ساتھ قر آن کی تلاوت کرے، چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آیا ہے، جس پر صحیح مسلم کے ایک شارح نے یہ باب قائم کیا ہے: (باب: ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرنا اور تیزی میں حد سے بڑھ جانے سے اجتناب کرنا) عبد اللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا: میں (تمام) مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتاہوں۔اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: (شعر کی سی تیز رفتاری کےساتھ پڑھتے ہو؟کچھ لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا،لیکن جب وہ دل میں پہنچتا اور اس میں راسخ ہوتاہے تو نفع دیتا ہے)۔شعبہ کا بیان ہے کہ ابو جمرۃ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں تیز رو قاری ہوں، بسا اوقات ایک رات میں ایک دفعہ یا دو دفعہ قرآن ختم کر لیتا ہوں، اس پر ابن عباس نے فرمایا: (میں صرف ایک سورۃ کی تلاوت کروں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے جو تم کرتے ہو، اگر تم کو تلاوت ہی کرنی ہو تو اس طرح تلاوت کرو کہ تمہارے کان تمہاری تلاوت سن سکیں اور تمہارا دل اسے سمجھ سکے)۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا، اس نے اسے سمجھا ہی نہیں)۔ابن رجب رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ ممانعت فضیلت والے اوقات مثلاً رمضان کے لیے نہیں ہے۔

ایک اور نکتہ جسے سمجھنا ضروری ہے وہ یہ کہ مومن کو تلاوت قرآن کے تعلق سے یہ فکر دامن گیر نہیں ہونی چاہئے کہ کثرت سے قرآن ختم کرے، بلکہ توفیق یافتہ مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقصیر وکوتاہی سے کام نہ لے کہ پورا مہینہ گزر جائے اور وہ ایک ختم بھی قرآن نہ پڑھ سکے اور نہ غلو سے کام لے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ وطریقہ سے تجاوز کرجائے۔
اے اللہ کے بندہ او ربندی! قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں، کیوں کہ نزول قرآن کا مقصد اس میں غور وفکر کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " نزول قرآن کا مقصدیہ ہے کہ اس پرعمل کیا جائے، لیکن لوگوں نے اس کی تلاوت کو ہی عمل بنالیا"۔


 

 
  • مقالات ورسائل
  • الصفحة الرئيسية